آنے والے ساحلوں پر۔۔۔

مجید امجد


آنے والے ساحلوں پر تو جانے کن قدر وں کی میزانیں ہیں
لیکن ان سب بھرے جہازوں کو دیکھو، یہ قدآور مستول اور ممتلی بادبان۔۔۔
عرشے عرشے پر یہ بوجھل روحوں، چکنی آنکھوں والے مسافر ۔۔۔
کس نخوت سے ، کن اطمینانوں میں تیرتے ہیں یہ بیڑے ۔۔۔
جن میں لدے ہوئے یہ خزانے آنے والے ساحلوں پر سب مٹی کے دانے ہیں
اور اس ڈوبنے والے کو دیکھو۔۔۔ اک موج کے بل پر آخری بار ابھر کر
دور سے اس نے بادبانوں کی دھندلی قوس کو کس حسرت سے دیکھا۔۔۔
اور اس کے دل میں وہ دولت تھی، آنے والے ساحل جس کی قیمت ہیں ۔۔۔
اور ان جیتی ہانپتی سڑکوں کے پتھریلے سمندر۔۔۔ مڑتے اور لہراتے ۔۔۔
اپنی منجدھاروں اور اپنے ساحلوں کو یوں روز اچھالتے ہیں میری نظروں کے سامنے
دنیاؤں اور عقباؤں کے اس سنگھم پر۔۔۔
اور میں خالی ہاتھوں سوچتا ہوں… کون ایسا ہے جو
ان سنگین تریڑوں کے جب پار اترے تو اس کے پاس وہ سا مگری ہو
آنے والے گھاٹ پہ جس کا مول ہے
 
فہرست