خوردبینوں پہ جھکی۔۔۔

مجید امجد


خوردبینوں پہ جھکی آنکھوں کی ٹکٹکی کے نیچے دنیا کے چمکیلے شیشے پر اپنے لہو کی چکٹ میں
کلبلاتے ، بے کل جرثومو!
دیکھو، تمہارے سروں پر گرداں خوردبینوں میں گھورتی آنکھیں تقدیروں کی
تم سے کیا کہتی ہیں، سنو تو۔۔۔
’’بھرے کرے پر جڑجڑ جیتے کرمکو، تم کب تک سورج کی کرنوں کا میٹھا کیچڑ چاٹو گے ۔۔۔
گیلا ریتلا سرد اندھیرا ہے آگے تو۔۔۔
آگے تو جو کچھ ہو ۔۔۔
لیکن آج تمہارے جڑے جڑے جسموں کی لپٹوں اور تمہاری گتھم گتھا روحوں کے گچھوں کے
اندر جب میرے دبلے سے دل نے اچانک
اپنے اکیلے پن میں اپنا رخ اپنی جانب دیکھا ہے تو تم میں ہوتے ہوئے بھی میرے دل کو تم پہ
ترس آیا ہے
آگے تو جو کچھ ہو۔۔۔
دنیا کے دھبے میں بھری ہوئی ہم سب بے چہرہ بے کل روحیں، ہم سب کلبلاتے جرثومے
آگے جو کچھ ہو۔۔۔ اک بار تو خود پہ ترس کھا کر دیکھیں۔۔۔
شاید ہم کو دیکھنے کے لیے تقدیروں کو اپنی خوردبینوں کے زاویے بدلنے پڑیں۔۔۔
 
فہرست