صدیوں تک۔۔۔

مجید امجد


صدیوں تک، اقلیموں اقلیموں، زندہ رہتا ہے ایک ہی جسم
پگھلا ہوا، بے جسم ۔۔۔ اک جسم
اپنے چلن کے چولے میں
ایک یہی پیکر
جس میں روحیں آ آ کر اپنی میعادوں میں چکراتی ہیں، کھو جاتی ہیں
زندہ رہتا ہے صدیوں کے کبڑے گھروندوں میں
زندہ ہواؤں میں
اور جب اس کا زمانہ نیلے دھوؤں میں گہنا جاتا ہے
تو بھی اس کی زندگی لہک لہک جاتی ہے ان آنکھوں میں جو
گھنے گھنے باغوں کی طراوتوں سے بھر جاتی ہیں، جب تانبے کی دیواروں کے جنگل میں کہیں
شہنائی کی دھن بجتی ہے
کالے کھمبوں کی نوکیں جب آسمانوں کے سائبانوں کو چھید دیتی ہیں
تو بھی، سدا اک جیتی سوچ کے سانچے میں ڈھل جاتی ہیں سایوں کی عمریں
جب کالے بادل گھر گھر کر آتے ہیں
لوہے کی لچکیلی پٹڑیاں جب عفریتوں کے قدموں سے کڑکڑاتی ہیں
تو بھی، سدا اک گہری سانس کی نزدیکی میں سما جاتی ہیں ترستی دوریاں
شام کو جب تاروں کے ابد جل اٹھتے ہیں
 
فہرست