اپنے دکھوں کی مستی میں۔۔۔

مجید امجد


اپنے دکھوں کی مستی میں اک وہ خنداں چہرہ، جو میرے لیے خنداں تھا
اور وہ اپنی اک جنبش سے دونوں جہانوں کی سب زنجیروں کو جھٹک دینے والی بے کل پلکیں اور
وہ جذبیلی باغی آنکھیں، جو میری خاطر باغی تھیں
چاندنی میں کفنائے ہوئے ظلموں کی بستی کے ٹوٹے فرشوں پر
ان دو محرم سانسوں کے ادوار ۔۔۔ ان دو مونس قدموں کے زمانے
عجب ارادوں والی رات کے واقعے
جیتے واقعے
جن کے سامنے اپنے دل کی پسپائی کا میں شاہد ہوں
میں شاہد ہوں، جو کچھ بیتا اس سرکش مٹی کی طینت میں تھا
وہ سب کچھ اس طاغی دریا کی اک طغیانی تھی
دریا۔۔۔ جس نے صدیوں پہلے بھی اپنے رستے سے پلٹ کر اپنی ریت کی چادر پر
اک جلتی روح کی خاکستر کو جگہ دی
اک دنیا شاہد ہے ، راکھ کی اس ڈھیری کے سامنے آج بھی
ارمانوں کی جبینیں جھک جھک جاتی ہیں، جس طرح میری روح ہمیشہ اس خنداں
چہرے کے دھیان میں جھکی ہے
جب سے میرے دل کے دریاؤں نے رستے بدلے ہیں
 
فہرست