کالے بادل۔۔۔

مجید امجد


کالے بادل! تیرے خوف میں ڈوب کے میرے دریا رک جاتے ہیں
کالے بادل! تیری رو کے ساتھ امڈتے اندیشوں کی بابت سوچوں یا ان چڑھتے
پانیوں کو دیکھوں
جن پر یہ میری ناؤ رواں ہے ایسے ساحلوں کی جانب جو
میری آنکھوں میں بسنے والے چہروں کی اقلیمیں ہیں
تیری پرچھائیں کی حقیقت سے ڈرنے میں اپنی حقیقت بھی
مجھ کو پرچھائیں نظر آتی ہے
مجھ اک سائے کے یہ خدشے اور تجھ ایک حقیقت کی یہ ہیبتیں
ایک سدیمی ضابطے کی تربیتیں ہیں، جس سے ان دنیاؤں کی نمو ہے
کالے بادل! میرے ڈر کو جانچ اور اپنے دخانوں ہی میں بکھر کے گزر جا
ان دریاؤں کو بہنے دے جن میں میرے خیالوں کے یہ دھارے لہراتے ہیں
دھوپ ان پانیوں پر کھیلے گی تو وہ جزیرے چمکیں گے جو میری آنکھوں میں
بسنے والے چہروں کی اقلیمیں ہیں
 
فہرست