اندر سے اک دموی لہر۔۔۔

مجید امجد


اندر سے اک دموی لہر ابھر کے جب ان کے چہرے کی وریدوں میں بھر جاتی ہے اور
جب اس امتلا میں لو گ اپنی گلابی آنکھوں کے بے حرف تبسم سے مجھ کو اپنے دل کی اک
تیکھی بات سناتے ہیں
تو میں کہتا ہوں: ’’مولا، تو نے دیکھا، میں تیری اک کیسی دنیا میں ہوں‘‘
پل بھر آنکھوں کے گوشوں تک آ کے پلٹتی پتلیاں، مجھ کو اچانک سامنے پا کر پہلے
تو دانستہ اچٹ جاتی ہیں
اور پھر دوسرے لمحے ہنستی آنکھوں کی جھیلوں میں تیر کے میری جانب جب کچھ اتنے
تپاک سے امڈ پرتی ہیں
تو میں کہتا ہوں: ’’مولا، تو نے دیکھا، میرے یہ اتنے صادق رابطے تیرے کیسے کیسے
بندوں سے ہیں‘‘
مجھ کو دیکھے بغیر جنہیں سب علم ہے ، میں کس عالم میں ہوں، کچھ ایسی آنکھیں جب میری
جانب یوں تکتی ہیں
جیسے دنیا والے اک میت کو اس کے مرے ہوئے ہونے کے وثوق میں تکتے ہیں
تو میں کہتا ہوں: ’’مولا! ان لوگوں کو میری زندگی کی بھی خبر دے ‘‘
باہر گیلی گیلی سڑکوں پر، سرما کے ٹھنڈے محرم جھونکوں کے ساتھ، اس پامال سہانی دھوپ
میں تھوڑی دور چلا ہوں تو اب میرا دل کہتا ہے :
’’مولا، تیری معرفتیں تو انسانوں کے جمگھٹ میں تھیں، میں کیوں پڑا رہا اپنے ہی خیالوں کی
اس اندھیری کٹیا میں اب تک؟‘‘
 
فہرست