دوسروں کے بھی علم۔۔۔

مجید امجد


دوسروں کے بھی علم سے باہر ہیں
وہ سب وابستگیاں جو میرے علم کی سرشاری ہیں
میرے علم سے بھی باہر ہیں
وہ سب وابستگیاں جو دوسرے کے علموں میں عزیز ہیں
لیکن سب وابستگیاں۔۔۔ سب کی وابستگیاں ان روحوں سے ہیں
جو مٹی میں یکساں، یک منزل ہیں
اک اک قبر پہ جلنے والا دیا گو الگ الگ گھر سے آتا ہے
لیکن سارے دیوں کی روشنیاں مل کر مٹی کے اک ہی عالم میں جھلملاتی ہیں
ایک ہی عالم، اپنے غیبوں میں ہر سو حاضر، حاوی
جس کے الگ الگ ڈانڈے اک اک دل سے ملے ہوئے ہیں
آسمانوں کے پیچھے ؟
کہیں مٹی کے نیچے ؟
جانے کہاں بہتا ہے آنسوؤں میں لتھڑی ہوئی نسبتوں کا وہ دریا۔۔۔
جس کی اس اک رو کو ہی پہچانتا ہے ہر شخص جو صرف اس کے دل تک آتی ہے
وہ دریا جس کی طغیانیاں ناموجود زمانوں کے ساحل سے چھلک کے ہماری ان
پلکوں سے ٹپکتی ہیں تو
ہم کو ایک ایک دیا اک اک تربت پر الگ الگ جل اٹھتا نظر آتا ہے
سب علموں کی یہ تفریقیں ہیں، ورنہ آنسو کب جانب دار ہوئے ہیں
 
فہرست