بستے رہے سب۔۔۔

مجید امجد


بستے رہے سب تیرے بصرے ، کوفے
اور نیزے پر بازاروں بازاروں گزرا
سر ۔۔۔ سرور کا
قید میں منزلوں منزلوں روئی
بیٹی ماہِ عرب کی!
اور ان شاموں کے نخلستانوں میں گھر گھر روشن رہے الاؤ
چھینٹے پہنچے تیری رضا کے ریاضوں تک خونِ شہدا کے
اور تیری دنیا کے دمشقوں میں بے داغ پھریں زرکار عبائیں
سامنے لہو بھرے طشتوں میں تھے مقتول گلابوں کے چہرے فرشوں پر
اور ظلموں کے درباروں میں آہن پوش ضمیروں کے دے دے بے نم تھے
مالک، تو ہی ان سب شقی جہانوں کے غوغا میں
ہمیں عطا کر
زیرِ لب ترتیلیں ان ناموں کی، جن پر تیرے لبوں کی مہریں ہیں
 
فہرست