دو پہیوں کا جستی دستہ۔۔۔

مجید امجد


دو پہیوں کا جستی دستہ تھام کے چلتے پھرتے میں نے
سدا اسی اک تول میں اک محسوس نہ ہونے والے چین سے
اس دنیا کو دیکھا
بڑھتے مڑتے ، کالے بھنور سڑکوں کے
اور دو رویہ وہ تختے پھولوں کے
پھول بلاتے بھی تھے اور میں رک بھی نہیں سکتا تھا
وہ دو پہیے ارض و سما تھے ، وہ دو پہیے رک بھی نہیں سکتے تھے
پھولوں کے وہ دو رویہ تختے ۔۔۔ اکثر ان کی بابت سوچا
کبھی تو آ کر باہم جڑتے چلے جائیں یہ تختے
ان پہیوں کے ساتھ ساتھ ان میرے قدموں کے نیچے
آگے ۔۔۔ دور تک۔۔۔ جہاں بھنور ان سڑکوں کے مڑتے ہیں
 
فہرست