بات کرے بالک سے ۔۔۔

مجید امجد


بات کرے بالک سے ۔۔۔ اور بولے رہ چلتوں سے
اک یہ ذرا کچھ ڈھلی ہوئی شوبھا والی کوملتا
اس کے ستے ستے بال اور پیلی مانگ سے کچھ سرکا ہوا آنچل
دکھی دکھی سی دکھنے کی کوشش کا دکھ
اس کے چہرے کو چمکائے اور اس کے دل کو اک ڈھارس سی دے
بڑے یقینوں میں مڑ مڑ کر دیکھے ، جیسے کچھ رستے میں بھول آئی ہو
مڑنے میں وہ بات کرے اپنے پیچھے چلتے بالک سے ، لیکن بولے مجھ سے ، میری جانب
اپنی بات اور اپنی نظر کو یک جا کر کے !
دیکھنے میں شاید میں اتنا بھلا مانس نہیں لگتا
 
فہرست