جب صرف اپنی بابت۔۔۔

مجید امجد


جب صرف اپنی بابت اپنے خیالوں کا اک دیا مرے من میں جلتا رہ جاتا ہے
جب باقی دنیا والوں کے دلوں میں جو جو اندیشے ہیں ان کے الاؤ مری نظروں
میں بجھ جاتے ہیں
تب تو یوں لگتا ہے جیسے کچھ دیواریں ہیں جو میرے چاروں جانب اٹھ آئی ہیں
میں جن میں زندہ چن دیا گیا ہوں
اور پھر دوسرے لمحے اس دیوار سے ٹیک لگا کر۔۔۔ اپنے آپ کو بھول کر
میں نے اپنی روح کے دریاؤں کو جب بھی سامنے پھیلے ہوئے خودموج سمندر کی
وسعت میں سمو دیا ہے
میری قبر کی جامد پسلیاں اک غافل کر دینے والے سانس کی زد سے دھڑک اٹھی ہیں
لیکن اس اک بے بہا غفلت کو اپنانا بھی تو کتنا کٹھن ہے
پھر دیواریں میرے گرد اٹھ آتی ہیں اور ۔۔۔
پھرخودآ گہی کا دھندلا سا مقدس دیا مری ہستی کی قبر پر ٹمٹمانے لگتا ہے
 
فہرست