پھر مجھ پر بوجھ۔۔۔

مجید امجد


پھر مجھ پر بوجھ آ پڑتا ہے ان نظروں کا
جو دنیا میں واحد نظریں ہیں جو دنیا کی ہر شے میں مجھ کو دیکھتی ہیں ۔۔۔ اک مجھ کو
اور یوں مجھ کو دیکھنے میں ان آنکھوں کے آنسو حائل نہیں ہوتے ، بلکہ پلٹ جاتے ہیں
پھر اس بوجھ کے نیچے میری اپاہج معرفتوں کا بازوبڑھ کے مرے دل کی کھڑکی کو
کھول دیتا ہے
جس کے کواڑوں سے پھر آ کر ٹکراتے ہیں
باہر زور سے چلنے والی غفلتوں کی آندھی کے تیز تیز جھونکے ! وہ کھڑکی زور سے بند
ہو جاتی ہے اور
پھر ان سہمی ہوئی پتھریلی مستطیلوں سے ابل پڑتا ہے
اجلی اجلی زندگیوں کا دریا
جس کا پانی اتنا مہین ہے ، سونے کے ذرے اس میں تیرتے صاف نظر آتے ہیں
جن میں میرے خیال بھٹک جاتے ہیں
سر سے سارے بوجھ اتر جاتے ہیں
بجلی کے پنکھے کی طوفانی جھنکارمیں
میرے چہرے پر ٹھنڈے جھونکے کی جھالریں بکھر جاتی ہیں
اور پھر یہ بھی نہیں میں سوچتا، میں کس جنت میں دوزخی ہوں
 
فہرست