مطلب تو ہے وہی ۔۔۔

مجید امجد


مطلب تو ہے وہی ۔۔۔ تم چاہے برف کے بلاکوں سے اک بھرے ہوئے رہڑے کو کھینچو۔۔۔
(سامنے پل کی چڑھائی ہے ، ہاں، دیکھ کے ، بوٹ نہ پھسلیں۔۔۔
اور اب تھم کے ، آگے رستہ صاف ہے ، عینک کے گیلے شیشوں کو پونچھو ۔۔۔ چلو ۔۔۔ چلو)
یا اک ڈسک پہ جھک کے لفظ تراشو، اپنے دل کی چٹان کو توڑ کے
دونوں صورتیں، ایک ہی بات
تمھیں تو اک ان دیکھے تازیانے کی بے آواز آواز پر
عدل کی چکی پیسنی ہے اور عدل کی چکی میں خود بھی پسنا ہے
اس چکی سے گرتا گرم سنہرے آٹے کا جھرنا تو جانے کس کس کیفیت میں گندھے گا
اپنے جتنوں میں تم جن رتنوں کو ڈھونڈ رہے ہو، جانے کن پتنوں کے پار ملیں گے
اس دوران میں کرے پھسلتے رہیں گے
جسموں کی سوجی ہوئی لہروں کا فرش اس دریا پر ٹوٹتا جڑتا رہے گا
کہیں کناری دار آنچل کے بیضوی چوکھٹے میں اک چہرہ
اک لب بستہ چہرہ
اپنے آپ یہ اپنی آنکھیں جھکاتے
سوچے گا: تم اس کی جانب کب دیکھو گے !
اور کہیں ظلموں کی زد میں دکھ کی اک چیخ
اپنے دردوں میں بہہ جائے گی یہ جان کے : تم امداد کو آ نہ سکو گے
ہاں۔۔۔ تو ۔۔۔ ڈر گئے نا تم ۔۔۔ تم اور کر بھی کیا سکتے تھے
اک یہ ڈر ہی تو وہ تمھاری قوت ہے ، تم جس پہ بھروسا کر سکتے ہو
اک بار اور اپنی پوری قوت سے توجہ
ورنہ برف کے لفظوں میں سب آگ پگھل جائے گی
 
فہرست