خوابوں کو شاداب کروں

رئیس فروغؔ


میں راتوں کا دریا ہوں
خوابوں کو شاداب کروں
اندھیاروں اجیاروں سے
بھولے بسرے خواب کہوں
پچھلے پہر کی رم جھم میں
کوئی انوکھی بات سنوں
اپنے ساتوں رنگ لیے
سندر بن میں اتر چلوں
سونے گھر کے ماتھے پر
جلے نگر کی راکھ ملوں
ایسی برہنہ راتوں میں
جی چاہے جو سوانگ بھروں
پھر مری خوشبو تیز ہوئی
پھر کوئی شعلہ ہاتھ میں لوں
پھر کوئی دریا آنکھ میں ہے
پھر کسی لہر کے ساتھ چلوں
آج کی نیند اچٹنے پر
کتنی دیر اداس رہوں
دھیان کے جل تھل ایک ہوئے
اب میں تجھ سے کہاں ملوں
فہرست