جلا گئی ہے جسم تک

رئیس فروغؔ


کسی خیال کی جھلک
جلا گئی ہے جسم تک
سبو نشیں تو کون ہے
اگر شراب ہے چھلک
حصار خواب گاہ بن
شکست ساز کی دھنک
کرن کا ساتھ ہے تو پھر
ہوا کے فرش پر تھرک
سوادِ شب کے راہ داں
سحر سے پیشتر نہ تھک
اوائل نمو رہے
اواخر بہار تک
فریب جاں کو چاہیے
کسی بھی پھول کی مہک
کسی کسی اصول میں
کبھی کبھی کوئی لچک
حریف آ گہی ابھی
ہزار سال تک ہمک
فروغؔ اس کے شہر میں
پئے بغیر ہی بہک
فہرست