وہ ہنس پڑے مجھے مشکل میں ڈالنے کے لیے

احسان دانش


وفا کا عہد تھا دل کو سنبھالنے کے لیے
وہ ہنس پڑے مجھے مشکل میں ڈالنے کے لیے
بندھا ہوا ہے بہاروں کا اب وہیں تانتا
جہاں رکا تھا میں کانٹے نکالنے کے لیے
کوئی نسیم کا نغمہ کوئی شمیم کا راگ
فضا کو امن کے قالب میں ڈھالنے کے لیے
خدا نہ کردہ زمیں پاؤں سے اگر کھسکی
بڑھیں گے تند بگولے سنبھالنے کے لیے
اتر پڑے ہیں کدھر سے یہ آندھیوں کے جلوس
سمندروں سے جزیرے نکالنے کے لیے
ترے سلیقۂ ترتیبِ نو کا کیا کہنا
ہمیں تھے قریۂ دل سے نکالنے کے لیے
کبھی ہماری ضرورت پڑے گی دنیا کو
دلوں کی برف کو شعلوں میں ڈھالنے کے لیے
یہ شعبدے ہی سہی کچھ فسوں گردوں کو بلاؤ
نئی فضا میں ستارے اچھالنے کے لیے
ہے صرف ہم کو ترے خال و خد کا اندازہ
یہ آئنہ تو ہیں حیرت میں ڈالنے کے لیے
نہ جانے کتنی مسافت سے آئے گا سورج
نگار شب کا جنازہ نکالنے کے لیے
میں پیش رو ہوں اسی خاک سے اگیں گے چراغ
نگاہ و دل کے افق کو اجالنے کے لیے
فصیلِ شب سے کوئی ہاتھ بڑھنے والا ہے
فضا کی جیب سے سورج نکالنے کے لیے
کنوئیں میں پھینک کے پچھتا رہا ہوں اے دانشؔ
کمند تھی جو مناروں پر ڈالنے کے لیے
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
مجتث مثمن مخبون محذوف مسکن
فہرست