حیات موت سے ٹکرا گئی تو کیا ہو گا

احسان دانش


نظر فریب قضا کھا گئی تو کیا ہو گا
حیات موت سے ٹکرا گئی تو کیا ہو گا
بزعم ہوش تجلی کی جستجو بے سود
جنوں کی زد پہ خرد آ گئی تو کیا ہو گا
نئی سحر کے بہت لوگ منتظر ہیں مگر
نئی سحر بھی جو کجلا گئی تو کیا ہو گا
نہ رہنماؤں کی مجلس میں لے چلو مجھ کو
میں بے ادب ہوں ہنسی آ گئی تو کیا ہو گا
شباب لالہ و گل کو پکارنے والو
خزاں سرشت بہار آ گئی تو کیا ہو گا
خوشی چھنی ہے تو غم کا بھی اعتماد نہ کر
جو روح غم سے بھی اکتا گئی تو کیا ہو گا
یہ فکر کر کہ ان آسودگی کے دھوکوں میں
تری خودی کو بھی موت آ گئی تو کیا ہو گا
لرز رہے ہیں جگر جس سے کوہساروں کے
اگر وہ لہر یہاں آ گئی تو کیا ہو گا
وہ موت جس کی ہم احسانؔ سن رہے ہیں خبر
رموزِ زیست بھی سمجھا گئی تو کیا ہو گا
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
مجتث مثمن مخبون محذوف مسکن
فہرست