تو ہی بتا دے ناز سے ایمان آرزو!

اختر شیرانی


میں آرزوئے جاں لکھوں یا جان آرزو!
تو ہی بتا دے ناز سے ایمان آرزو!
آنسو نکل رہے ہیں تصور میں بن کے پھول
شاداب ہو رہا ہے گلستان آرزو!
ایمان و جاں نثار تری اک نگاہ پر
تو جان آرزو ہے تو ایمان آرزو!
ہونے کو ہے طلوع صباح شبِ وصال
بجھنے کو ہے چراغ شبستان آرزو!
اک وہ کہ آرزؤں پہ جیتے ہیں عمر بھر
اک ہم کہ ہیں ابھی سے پشیمان آرزو!
آنکھوں سے جوئے خوں ہے رواں دل ہے داغ داغ
دیکھے کوئی بہار گلستان آرزو!
دل میں نشاط رفتہ کی دھندلی سی یاد ہے
یا شمع وصل ہے تہ دامان آرزو!
اخترؔ کو زندگی کا بھروسا نہیں رہا
جب سے لٹا چکے سر و سامان آرزو!
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
فہرست