بلبل گلوں سے دیکھ کے تجھ کو
بگڑ گیا
قمری کا طوق سرو کی گردن میں
پڑ گیا
چیں بر جبیں نہ اے بت چین رہ غرور سے
تصویر کا ہے عیب جو چہرہ
بگڑ گیا
آئی تو ہے پسند اسے چال یار کی
سن لیجو پاؤں کبکِ دری کا
اکھڑ گیا
پیچھے ہٹا نہ کوچۂِ قاتل سے اپنا پاؤں
سر سے تڑپ کے چار قدم آگے
دھڑ گیا
کھینچی جو میری طرح سے قمری نے آہ سرد
جاڑے کے مارے سرو چمن میں
اکڑ گیا
شیریں کے شیفتہ ہوئے پرویز و کوہ کن
شاعر ہوں میں یہ کہتا ہوں مضمون
لڑ گیا
اللٰہ رے شوق اپنی جبیں کو خبر نہیں
اس بت کے آستانہ کا پتھر
رگڑ گیا
درماں سے اور درد ہمارا ہوا دو چند
مرہم سے داغ سینہ میں ناسور
پڑ گیا
گلدستہ بن کے رونق بزم شہاں ہوا
کوڑا جو اس فقیر کے تکیے سے
جھڑ گیا
نکلا نہ جسم سے دلِ نالاں شریک روح
منزل میں رنگ ناقہ سے اپنے
بچھڑ گیا
پہنچا مجاز سے جو حقیقت کی کنہ کو
یہ جان لے کہ راستے میں پھیر
پڑ گیا
فرقت کی شب میں زیست نے اپنی وفا نہ کی
قبل سحر چراغ ہمارا نہ
بڑھ گیا
پاتا ہوں شوقِ وصل میں احباب کی کمی
حسن و جمالِ یار میں کچھ فرق
پڑ گیا
لاشوں کو عاشقوں کے نہ اٹھو گلی سے یار
بسنے کا پھر یہ گاؤں نہیں جب
اجڑ گیا
دیکھا تجھے جو خونِ شہیداں سے سرخ پوش
ترک فلک زمیں میں خجالت سے
گڑ گیا
برسوں کی راہ آ کے عزیزاں نکل گئے
افسوس کارواں سے میں اپنے
بچھڑ گیا
آیا جو شرح لعل لبِ یار کا خیال
جھنڈا قلم کا اپنے بدخشاں میں
گڑ گیا
میں نے لیا بغل میں پری رو وصال کو
دیو فراق کشتی میں مجھ سے
بچھڑ گیا
آتشؔ نہ پوچھ حال تو مجھ درد مند کا
سینہ میں داغ داغ میں ناسور
پڑ گیا