لباس یار کو میں پارہ
پارہ کیا کرتا
بہارِ گل میں ہیں دریا کے جوش کی لہریں
بھلا میں کشتی مے سے
کنارہ کیا کرتا
نقاب الٹ کے جو منہ عاشقوں کو دکھلاتے
تمہیں کہو کہ تمہارا
نظارہ کیا کرتا
سنا جو حالِ دلِ زار یار نے تو کہا
طبیب مرتے ہوئے کاہے
چارہ کیا کرتا
ہلالِ عید کا ہر چند ہو جہاں مشتاق
تمہاری ابروؤں کا سا
اشارہ کیا کرتا
حقیقت دہنِ یار کھولتا کیوں کر
قدم کو پیچھے رہ خوف ناک عشق میں رکھ
یہ پہلے دیکھ لے دل ہے
اشارہ کیا کرتا
خم شراب سے مجھ مست نے نہ منہ پھیرا
کنارِ آب سے پیاسا
کنارہ کیا کرتا
بہار تھی جو وہ گل چہرہ یار بھی ہوتا
اکیلے جا کے چمن کا
نظارہ کیا کرتا
گداز موم سے ہر استخواں کو پاتا ہوں
پھر اور سوزشِ دل کا
حرارہ کیا کرتا
بڑا ہی خوار علاقہ ہے گلشن الفت
مری طرح کوئی اس میں
اجارہ کیا کرتا
شراب خلد کی خاطر دہن ہے رکھتا صاف
وضو میں ورنہ یہ زاہد
غرارہ کیا کرتا
شکستہِ دل نہ ہو اس بت کے ناز سے کیوں کر
سلوک شیشہ سے ہے سنگِ
خارا کیا کرتا
بہارِ گل میں پیالہ لگا لیا منہ سے
فقیر کو نہیں درکار شان امیروں کی
بہارِ گل میں تھا جامہ سے باہر اے آتشؔ
نہ کرتا میں جو گریباں کو
پارہ کیا کرتا