دمِ شمشیر پہ سر رکھیں تو نیند آتی ہے

مصحفی غلام ہمدانی


نرمی بالش پر ہم کو نہیں بھاتی ہے
دمِ شمشیر پہ سر رکھیں تو نیند آتی ہے
کیا بری خو ہے مری بھی کہ بہ ایں دعوی عقل
میں بھی جاتا ہوں وہاں جانِ جہاں جاتی ہے
ناقبول اتنا ہوں مردے کو مرے بعد از مرگ
گور میں رکھیں تو مٹی بھی نہیں کھاتی ہے
حسن دیکھا ہے مگر ہند کی تصویریں کا
لیلیٰ بازار میں شکل اپنی جو بدلاتی ہے
نہ بچے گا کوئی ہرگز جو ہے رخ کی یہ صفا
نہ جیے گا کوئی مطلق جو یہ خوش گاتی ہے
خیر سلا سے نسیمِ سحری گھر جاوے
کر کے ذکر رخِ گل کیوں مجھے پٹواتی ہے
ستم بادِ خزاں سے جو کوئی گل کی کلی
شاخ پر خشک ہو رہ جاتی ہے مرجھاتی ہے
بے کسی اپنی کا عالم مجھے آ جائے ہے یاد
کہ گریباں میں مرا سر یوں ہی جھکواتی ہے
مصحفیؔ کی کوئی امید تو بر لا یارب!
مدتوں سے یہ ترے در کا مناجاتی ہے
فہرست