غزل سرا
ہماری کتابیں
شعراء
رابطہ
اکاؤنٹ
رجسٹر
لاگ اِن
غزل سرا کے بارے میں
تلاش
مرزا غالب
رہا گر کوئی تا قیامت سلامت
پھر اک روز مرنا ہے حضرت سلامت
اس فتنہ خو کے در سے اب اٹھتے نہیں اسدؔ
اس میں ہمارے سر پہ قیامت ہی کیوں نہ ہو
انشاء اللہ خان انشا
کر دیا مجتہد وقت کو قاتل جھٹ پٹ
ہم نے مسجد میں کل ایسے ہی قیامت کی بحث
داغ دہلوی
ہوش آتے ہی حسینوں کو قیامت آئی
آنکھ میں فتنہ گری دل میں شرارت آئی
اس ادا سے دم رفتار قیامت آئی
ایسے ہم کیوں نہ ہوئے ان کو یہ حسرت آئی
روزِ محشر جو مری داد کی نوبت آئی
یہ گئی وہ گئی کب ہاتھ قیامت آئی
حشر کا وعدہ بھی کرتے نہیں وہ کہتے ہیں
فرض کر لو جو کئی بار قیامت آئی
کھیل سمجھے تھے لڑکپن کو تیرے
بیٹھتے اٹھتے قیامت ہو گئی
قدم قدم پہ تمہارے ہمارے دل کی طرح
بسی ہوئی ہے قیامت کسی کو کیا معلوم
ابھی تو فتنے ہی برپا کیے ہیں عالم میں
اٹھائیں گے وہ قیامت کسی کو کیا معلوم
شیخ ابراہیم ذوق
پھر چلا مقتل عشاق کی جانبِ قاتل
سر پہ برپا کہیں کشتوں کے قیامت نہ کرے
قمر جلالوی
مجھ کو شکوہ ہے ستم کا تم کو انکارِ ستم
فیصلہ یہ ہو نہیں سکتا قیامت کے بغیر
کسی نو گرفتارِ الفت کے دل پر یہ آفت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے
سرِ بزم پہلو میں بیٹھا ہے دشمن قیامت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے
صرف اک امیدِ وعدہ پہ قائم حیات ہے
محشر میں تم ملو گے قیامت کی بات ہے
عرفان صدیقی
موجِ خوں ہو کہ ترے شہر کی دلدار ہوا
یار، جو سر سے گزر جائے قیامت ہے وہی
مشکل تو یہی ہے کہ قیامت نہیں آتی
قاتل مرا میدان قیامت میں تو آئے