سب سچ ہی سہی، پہلے سماعت میں تو آئے

عرفان صدیقی


جو دل میں ہے وہ حرف و حکایت میں تو آئے
سب سچ ہی سہی، پہلے سماعت میں تو آئے
اب تک جو ترے دستِ ستم میں ہے وہ تلوار
اک بار مرے دست مروت میں تو آئے
ہم ایسے ہوس کار نہیں جو نہ سدھر جائیں
تھوڑا سا مزہ کارِ محبت میں تو آئے
مشکل تو یہی ہے کہ قیامت نہیں آتی
قاتل مرا میدان قیامت میں تو آئے
اس نے ابھی دیکھا ہے سر پل مجھے تنہا
وہ شخص مری رات کی دعوت میں تو آئے
مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن
ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف
فہرست