لکھنٔو میں بھی بتوں کا قد و قامت ہے وہی

عرفان صدیقی


ہر جگہ فتنۂ محشر کی علامت ہے وہی
لکھنٔو میں بھی بتوں کا قد و قامت ہے وہی
بات کرنے لگے سناٹے تو معلوم ہوا
اب بھی خاموش زبانوں میں کرامت ہے وہی
کون ہم خانہ خرابوں کو کرے گا برباد
جو اس آشوب میں غارت ہے سلامت ہے وہی
آستیں پر کوئی دھبہ تو نہیں ہے ، لیکن
اس کی آنکھوں میں بہرحال ندامت ہے وہی
کم سے کم ایک روایت تو ابھی زندہ ہے
سر وہی ہوں کہ نہ ہوں، سنگِ ملامت ہے وہی
موجِ خوں ہو کہ ترے شہر کی دلدار ہوا
یار، جو سر سے گزر جائے قیامت ہے وہی
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فہرست