کچھ آگ بھری ہوئی ہے نے میں

مصطفٰی خان شیفتہ


کچھ درد ہے مطربوں کی لے میں
کچھ آگ بھری ہوئی ہے نے میں
کچھ زہر اگل رہی ہے بلبل
کچھ زہر ملا ہوا مے میں
بدمست جہان ہو رہا ہے
ہے یار کی بو ہر ایک شے میں
ہیں ایک ہی گل کی سب بہاریں
فروردیں میں اور فصلِ دے میں
ہے مستی نیم خام کا ڈر
اصرار ہے جام پے بہ پے میں
مے خانہ نشیں قدم نہ رکھیں
بزمِ جم و بارگاہ کے میں
اب تک زندہ ہے نام واں کا
گزرا ہے حسین ایک جے میں
ہوتی نہیں طے حکایتِ طے
گزرا ہے کریم ایک طے میں
کچھ شیفتہ یہ غزل ہے آفت
کچھ درد ہے مطربوں کی لے میں
مفعول مفاعِلن فَعُولن
ہزج مسدس اخرب مقبوض محذوف
فہرست