کب نگاہیں کرشمہ زار نہیں

مصطفٰی خان شیفتہ


کب نگہ اس کی عشوہ بار نہیں
کب نگاہیں کرشمہ زار نہیں
غیر پر رحم یہ کسے آیا
تم تو مانا ستم شعار نہیں
یاں فغاں سے لہو ٹپکتا ہے
میں نواسنج شاخسار نہیں
کلفت دل سے ہے جو آلودہ
گوہر اشک آبدار نہیں
ہم ہیں ایسے فراخ رو درویش
محفل پادشہ سے عار نہیں
نہ جلا خانۂِ عدو تو نہ ہنس
شعلۂِ آہ ہے شرار نہیں
باغ بے صرفہ چل کے کیا کیجے
جن سے تھی باغ کی بہار نہیں
بادہ بے ہودہ پی کے کیا کیجے
اب وہ ساقی نہیں وہ یار نہیں
اے منجم عبث یہ نادانی
تو کچھ اندازہ دان کار نہیں
تو روش یاب مہر و ماہ غلط
تو اداسنج روزگار نہیں
واقفِ اسرار آسمانی سے
جز حریفان بادہ خوار نہیں
چڑھ گئے ہیں کسی کے پھر دم پر
شیفتہؔ آج بے قرار نہیں
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع
فہرست