کیا روشن ہو جاتی تھی گلی جب یار ہمارا گزرے تھا

فیض احمد فیض


کچھ پہلے ان آنکھوں آگے کیا کیا نہ نظارا گزرے تھا
کیا روشن ہو جاتی تھی گلی جب یار ہمارا گزرے تھا
تھے کتنے اچھے لوگ کہ جن کو اپنے غم سے فرصت تھی
سب پو چھیں تھے احوال جو کوئی درد کا مارا گزرے تھا
اب کے خزاں ایسی ٹھہری وہ سارے زمانے بھول گئے
جب موسمِ گل ہر پھیرے میں آ آ کے دو بارا گزرے تھا
تھی یاروں کی بہتات تو ہم اغیار سے بھی بیزار نہ تھے
جب مل بیٹھے تو دشمن کا بھی ساتھ گوارا گزرے تھا
اب تو ہاتھ سجھائی نہ دیوے ، لیکن اب سے پہلے تو
آنکھ اٹھتے ہی ایک نظر میں عالم سارا گزرے تھا
فہرست