جوں اشک پھر زمیں سے اٹھایا نہ جائے گا

مرزا رفیع سودا


دل مت ٹپک نظر سے کہ پایا نہ جائے گا
جوں اشک پھر زمیں سے اٹھایا نہ جائے گا
رخصت ہے باغباں کہ تنک دیکھ لیں چمن
جاتے ہیں واں جہاں سے پھر آیا نہ جائے گا
آنے سے فوج خط کے نہ ہو دل کو مخلصی
بندھوا ہے زلف کا یہ چھٹایا نہ جائے گا
پہنچیں گے اس چمن میں نہ ہم داد کو کبھو
جوں گل یہ چاکِ جیب سلایا نہ جائے گا
تیغ جفائے یار سے دل سر نہ پھیریو
پھر منہ وفا کو ہم سے دکھایا نہ جائے گا
آوے گا وہ چمن میں نہ اے ابر جب تلک
پانی گلوں کے منہ میں چوایا نہ جائے گا
عمامے کو اتار کے پڑھیو نماز شیخ
سجدے سے ورنہ سر کو اٹھایا نہ جائے گا
زاہد گلے سے مستوں کے باز آنے کا نہیں
تا مے کدے میں لا کے چھکایا نہ جائے گا
ظالم نہ میں کہا تھا کہ اس خوں سے درگزر
سوداؔ کا قتل ہے یہ چھپایا نہ جائے گا
دامان و داغ تیغ کو دھویا تو کیا ہوا
عالم کے دل سے داغ دھلایا نہ جائے گا
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
فہرست