خدا معلوم کیسا سحر تھا اس بت کی
چتون میں
چلے جاتی ہیں اب تک چشمکیں شیخ و
برہمن میں
چھپیں گے کیا اسیران بلا صحرا کے
دامن میں
محبت دام کی پھر کھینچ کر لائے گی
گلشن میں
حجاب اٹھا زمیں سے آسماں تک چاندنی چھٹکی
گہن میں چاند تھا جب تک چھپے بیٹھے تھے
چلمن میں
کنکھیوں سے جو ہم کو بزم میں تم دیکھ لیتے ہو
کھٹک جاتے ہیں کانٹے کی طرح ہم چشم
دشمن میں
کنار آب جو بیٹھے ہیں مست نکہت ساغر
نظر سوئے فلک اور ہاتھ ہے مینا کی
گردن میں
گلا گھٹنے لگا اب تنگ آیا ہوں گریباں سے
جنوں نے واہ کیا پھانسی لگائی میری
گردن میں
بہت دستِ جنوں نے گدگدایا جب تو کیا کرتے
اتاریں بیڑیاں اور پہنے دہرے طوقِ
گردن میں
بتاؤ سیر صحرا کی کوئی تدبیر وحشی کو
گریباں میں تو ہاتھ الجھا پھنسا ہے پاؤں
دامن میں
ملا دے خاک میں اے چرخ اس اجڑے ہوئے گھر کو
کہ اپنی روح تک بے چین ہے اب خانۂ
تن میں
تھکے ماندے سفر کے سو رہے ہیں پاؤں پھیلائے
یہ سب مر مر کے پہنچے ہیں بڑی مشکل سے
مدفن میں
جو ہر دم جھانکتے تھے روزن دیوارِ زنداں سے
انہیں پھر چین آیا کس طرح تاریک
مدفن میں
کسے معلوم داغ آتشیں سے دل پہ کیا گزری
سدھارے ٹھنڈے ٹھنڈے سونپ کر سب ہم کو
مدفن میں
کجا موسیٰ کجا مقصود سبحان الذی اسریٰ
رگڑ کر ایڑیاں بس رہ گئے وادیِ
ایمن میں
حجابِ ناز بے جا یاسؔ جس دن بیچ میں آیا
اسی دن سے لڑائی ٹھن گئی شیخ و
برہمن میں