مرزا غالب

دھوتا ہوں جب میں پینے کو اس سیم تن کے پاؤں
رکھتا ہے ضد سے کھینچ کے باہر لگن کے پاؤں
مرہم کی جستجو میں پھرا ہوں جو دور دور
تن سے سوا فگار ہیں اس خستہ تن کے پاؤں
نہیں ہے رخم کوئی بخیے کے درخور مرے تن میں
ہوا ہے تارِ اشکِ یاس، رشتہ چشمِ سوزن میں
ودیعت خانۂِ بے دادِ کاوش ہائے مژگاں ہوں
نگینِ نامِ شاہد ہے مرا ہر قطرہِ خوں تن میں
ہزاروں دل دیے جوش جنونِ عشق نے مجھ کو
سیہ ہو کر سویدا ہو گیا ہر قطرہِ خوں تن میں
ضعف سے اے گریہ کچھ باقی مرے تن میں نہیں
رنگ ہو کر اڑ گیا، جو خوں کہ دامن میں نہیں
قطرہ قطرہ اک ہیولیٰ ہے نئے ناسور کا
خوں بھی ذوقِ درد سے ، فارغ مرے تن میں نہیں
ہو فشارِ ضعف میں کیا نا توانی کی نمود؟
قد کے جھکنے کی بھی گنجائش مرے تن میں نہیں
شبِ وصال میں مونس گیا ہے بن تکیہ
ہوا ہے موجب آرام جان و تن تکیہ
مزا ملے کہو کیا خاک ساتھ سونے کا
رکھے جو بیچ میں وہ شوخ سیم تن تکیہ
اگرچہ پھینک دیا تم نے دور سے لیکن
اٹھائے کیوں کہ یہ رنجورِ خستہ تن تکیہ
نسیمِ صبح جب کنعاں میں بوئے پیرہن لائ
پئے یعقوب ساتھ اپنے نویدِ جان و تن لائ
کریں گے کوہکن کے حوصلے کا امتحاں آخر
ہنوز اس خستہ کے نیروئے تن کی آزمائش ہے

امام بخش ناسخ


بہادر شاہ ظفر


حیدر علی آتش


داغ دہلوی


شیخ ابراہیم ذوق


فیض احمد فیض


یگانہ چنگیزی


عرفان صدیقی


مجید امجد