پیتے ہیں نوجوان شرابِ کہن ہنوز

حیدر علی آتش


جوش و خروش پر ہے بہارِ چمن ہنوز
پیتے ہیں نوجوان شرابِ کہن ہنوز
پاتا نہیں میں یار کو میل سخن ہنوز
معدوم ہے کمر کی طرح سے دہن ہنوز
برسوں سے رو رہا ہوں شب و روز متصل
ہنستے ہیں مدتوں سے مرے زخم تن ہنوز
رخسارِ یار پر نہیں آغاز خط ابھی
دیکھا نہیں ان آنکھوں نے سورج گہن ہنوز
انجام کار کا نہیں آتا خیال کچھ
غربت میں بھولے بیٹھے ہیں یار وطن ہنوز
عالم ان ابروؤں کی کجی کا جو ہے سو ہے
بل کھا رہی ہے زلفِ شکن در شکن ہنوز
خلعت کی کیا امید رکھیں آسماں سے ہم
اس نے تو داب رکھا ہے اپنا کفن ہنوز
عالم حجاب یار کا تا حال ہے وہی
خلوت نشیں ہے روشنی انجمن ہنوز
اپنے صفائے سینہ کا حیران کار ہے
دیکھا نہیں ہے آئنے نے وہ بدن ہنوز
ہر چند باغ دہر میں مدت سے ہوں مقیم
آتشؔ نظر پڑا نہ وہ سیب ذقن ہنوز
فہرست