پھیریں گے اپنی طرف روئے دل آرام کو ہم

حیدر علی آتش


آئنہ خانہ کریں گے دلِ ناکام کو ہم
پھیریں گے اپنی طرف روئے دل آرام کو ہم
شام سے صبح تلک دور شراب آخر ہے
روتے ہیں دیکھ کے خنداں دہن جام کو ہم
یاد رکھنے کی جگہ ہے یہ طلسم حیرت
صبح کو دیکھتے ہی بھول گئے شام کو ہم
آنکھ وہ فتنۂِ دوراں کسے دکھلاتا ہے
شعبدہ جانتے ہیں گردشِ ایام کو ہم
فتنہ انگیزی بھی چھپتی ہے کہیں پردے میں
سنتے ہیں گبر و مسلماں سے ترے نام کو ہم
خون قاصد تو وہ سفاک سمجھتا ہے حلال
کسی غماز سے بھجوائیں گے پیغام کو ہم
پاؤں پکڑے ہیں زمیں نے یہ ترے کوچہ کی
رہ صد سالہ سمجھتے ہیں اب اک گام کو ہم
دیدۂِ یار کہیں کیا اسے کیف مے میں
بھون کر روز گزک کرتے ہیں بادام کو ہم
بیزۂِ خط سے ہوئی اس کی کدورت دہ چند
اب صفائی کے لیے ڈھونڈیں گے حجام کو ہم
یہی تحصیل محبت کا ہے عالم تا حال
پختہ کرتے ہیں ہنوز آرزوئے خام کو ہم
لطف حاصل ہو جو زلفوں میں گرفتاری کا
مول لیں دل کی اسیری کے لیے دام کو ہم
کوچۂِ یار میں اپنا جو گزر ہوتا ہے
نگراں رہتے ہیں حسرت سے در و بام کو ہم
حسن سے عشق کی خاطر ہے خدا نے بھیجا
کرتے ہیں آتشؔ اسے آئے ہیں جس کام کو ہم
فہرست