پھرے ضمیر خبر جیسے مبتدا کی طرف

حیدر علی آتش


رجوع بندہ کی ہے اس طرح خدا کی طرف
پھرے ضمیر خبر جیسے مبتدا کی طرف
بعید کیا ہے مروت سے تیری اے شہ حسن
نگاہِ لطف سے دیکھے جو تو گدا کی طرف
کہاں وہ زلف کہاں خون نافۂ آہو
جو مشک سمجھے ہیں وہ لوگ ہیں خطا کی طرف
الجھ کے شانے سے کھاتا ہے سیکڑوں جھٹکے
قصور سے یہ ترے گیسوئے رسا کی طرف
خدا نے دردِ محبت عطا کیا ہے جسے
اسے توجہ خاطر نہیں دوا کی طرف
ملا جو تم نے لہو دست و پا میں عاشق کا
نہ ہو گا میل طبیعت کو پھر حنا کی طرف
کرے گا یار مری جنگ غیر میں امداد
جو آشنا ہیں وہ ہوتے ہیں آشنا کی طرف
فراقِ یار میں رہتا ہے یوں تصور گور
خیال جیسے مسافر کا ہو سرا کی طرف
نہ ہو گا ہم سفر روح پیکر خاکی
یہ سوئے ارض رواں ہو گا وہ سما کی طرف
بہت خراب رہا بت کدے میں اے آتشؔ
خدا پرست ہے چل خانۂِ خدا کی طرف
فہرست