کتنا اچھا اپنا من‘ اپنا بدن لگنے لگا

عرفان صدیقی


اس نے کیا دیکھا کہ ہر صحرا چمن لگنے لگا
کتنا اچھا اپنا من‘ اپنا بدن لگنے لگا
جنگلوں سے کون سا جھونکا لگا لایا اسے
دل کہ جگنو تھا چراغِ انجمن لگنے لگا
اس کے لکھے لفظ پھولوں کی طرح کھلتے رہے
روز ان آنکھوں میں بازارِ سمن لگنے لگا
اول اول اس سے کچھ حرف و نوا کرتے تھے ہم
رفتہ رفتہ رائیگاں کارِ سخن لگنے لگا
جب قریب آیا تو ہم خود سے جدا ہونے لگے
وہ حجابِ درمیانِ جان و تن لگنے لگا
ہم کہاں کے یوسف ثانی تھے لیکن اس کا ہاتھ
ایک شب ہم کو بلائے پیرہن لگنے لگا
تیرے وحشی نے گرفتاری سے بچنے کے لیے
رم کیا اتنا کہ آہوئے ختن لگنے لگا
ہم بڑے اہلِ خرد بنتے تھے یہ کیا ہو گیا
عقل کا ہر مشورہ دیوانہ پن لگنے لگا
کر گیا روشن ہمیں پھر سے کوئی بدرِ منیر
ہم تو سمجھے تھے کہ سورج کو گہن لگنے لگا
فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن
رمل مثمن محذوف
فہرست