چمن میں خوش نوایانِ چمن کی آزمائش ہے

مرزا غالب


حضورِ شاہ میں اہلِ سخن کی آزمائش ہے
چمن میں خوش نوایانِ چمن کی آزمائش ہے
قد و گیسو میں ، قیس و کوہکن کی آزمائش ہے
جہاں ہم ہیں ، وہاں دار و رسن کی آزمائش ہے
کریں گے کوہکن کے حوصلے کا امتحاں آخر
ہنوز اس خستہ کے نیروئے تن کی آزمائش ہے
نسیمِ مصر کو کیا پیرِ کنعاں کی ہوا خواہی!
اسے یوسف کی بوئے پیرہن کی آزمائش ہے
وہ آیا بزم میں ، دیکھو ، نہ کہیو پھر کہ غافل تھے
شکیب و صبر اہلِ انجمن کی آزمائش ہے
رہے دل ہی میں تیر ، اچھا ، جگر کے پار ہو ، بہتر
غرض شستِ بتِ ناوک فگن کی آزمائش ہے
نہیں کچھ سبحۂِ و زنار کے پھندے میں گیرائی
وفاداری میں شیخ و برہمن کی آزمائش ہے
پڑا رہ ، اے دلِ وابستہ ! بیتابی سے کیا حاصل؟
مگر پھر تابِ زلفِ پرشکن کی آزمائش ہے
رگ و پے میں جب اترے زہرِ غم ، تب دیکھیے کیا ہو!
ابھی تو تلخی کام و دہن کی آزمائش ہے
وہ آویں گے مرے گھر ، وعدہ کیسا ، دیکھنا ، غالب!
نئے فتنوں میں اب چرخِ کہن کی آزمائش ہے
فہرست