صبح کے مانند ، زخمِ دل گریبانی کرے مرزا غالب چاک کی خواہش ، اگر وحشت بہ عریانی کرے صبح کے مانند ، زخمِ دل گریبانی کرے جلوے کا تیرے وہ عالم ہے کہ ، گر کیجے خیال دیدۂِ دل کو زیارت گاہ حیرانی کرے ہے شکستن سے بھی دل نومید ، یارب ! کب تلک آبگینہ کوہ پر عرضِ گرانجانی کرے میکدہ گر چشمِ مستِ ناز سے پاوے شکست موئے شیشہ دیدۂِ ساغر کی مژگانی کرے خط عارض سے ، لکھا ہے زلف کو الفت نے عہد یک قلم منظور ہے ، جو کچھ پریشانی کرے