جفائیں کر کے اپنی یاد ، شرما جائے ہے مجھ سے

مرزا غالب


کبھی نیکی بھی اس کے جی میں ، گر آ جائے ہے مجھ سے
جفائیں کر کے اپنی یاد ، شرما جائے ہے مجھ سے
خدایا ! جذبۂِ دل کی مگر تاثیر الٹی ہے !
کہ جتنا کھینچتا ہوں ، اور کھنچتا جائے ہے مجھ سے
وہ بد خو ، اور میری داستانِ عشق طولانی
عبارت مختصر ، قاصد بھی گھبرا جائے ہے مجھ سے
ادھر وہ بد گمانی ہے ، ادھر یہ ناتوانی ہے
نہ پوچھا جائے ہے اس سے ، نہ بولا جائے ہے مجھ سے
سنبھلنے دے مجھے اے نا امیدی ! کیا قیامت ہے !
کہ دامان خیالِ یار ، چھوٹا جائے ہے مجھ سے
تکلف بر طرف ، نظارگی میں بھی سہی ، لیکن
وہ دیکھا جائے ، کب یہ ظلم دیکھا جائے ہے مجھ سے
ہوئے ہیں پاؤں ہی پہلے نبردِ عشق میں زخمی
نہ بھاگا جائے ہے مجھ سے ، نہ ٹھہرا جائے ہے مجھ سے
قیامت ہے کہ ہووے مدعی کا ہم سفر غالب !
وہ کافر ، جو خدا کو بھی نہ سونپا جائے ہے مجھ سے
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
ہزج مثمن سالم
فہرست