مسافروں کے ارادے بدل نہ جائیں کہیں

باقی صدیقی


یہ آگ آگ ہوائیں یہ سرخ سرخ زمیں
مسافروں کے ارادے بدل نہ جائیں کہیں
ترے بغیر نظر کا یہ حال ہے جیسے
تمام شہرکی شمعیں کسی نے گل کر دیں
ہزار کروٹیں لیتی ہے ایک پل میں حیات
جو ایک بار نگاہیں ہٹیں تو پھر نہ ملیں
ترے خیال میں گم ہو گئے ہیں دیوانے
ترے سوا کوئی اب تیری انجمن میں نہیں
اسی کا نام تو دیوانگی نہیں باقیؔ
کہ اپنے آپ سے ہنس ہنس کے ہم نے باتیں کیں
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
مجتث مثمن مخبون محذوف مسکن
فہرست