کس کے لیے ترس رہے ہیں

باقی صدیقی


کس کے جہاں میں بس رہے ہیں
کس کے لیے ترس رہے ہیں
میں انہیں بھی ہم نہیں یاد
جو ساتھ قفس قفس رہے ہیں
غرق شراب ہو گئے ہیں
جام کو بھی ترس رہے ہیں
رنگ میں زندگی کو ڈھالیں
رنگ میں آپ بس رہے ہیں
یہ ترے قہقہوں کی آواز
پھول گویا برس رہے ہیں
درد کا ماحصل ہے تعمیر
اجڑے تھے آج بس رہے ہیں
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع
فہرست