جینے کے لیے ترس رہے ہیں

باقی صدیقی


ہم کس کے جہاں میں بس رہے ہیں
جینے کے لیے ترس رہے ہیں
گلشن میں انہیں بھی ہم نہیں یاد
جو ساتھ قفس قفس رہے ہیں
آئی ترے قہقہوں کی آواز
یہ پھول کہاں برس رہے ہیں
کس رنگ میں زندگی کو ڈھالیں
ہر رنگ مں ی آپ بس رہے ہیں
ہم سے بھی زمانہ آشنا ہے
ہم بھی ترے ہم نفس رہے ہیں
شبنم کی طرح اڑے ہیں باقیؔ
بادل کی طرح برس رہے ہیں
مفعول مفاعِلن فَعُولن
ہزج مسدس اخرب مقبوض محذوف
فہرست