یہ کہانی نہیں سنانی ہے

جون ایلیا


زندگی کیا ہے اک کہانی ہے
یہ کہانی نہیں سنانی ہے
ہے خدا بھی عجیب یعنی جو
نہ زمینی نہ آسمانی ہے
ہے مرے شوقِ وصل کو یہ گلہ
اس کا پہلو سرائے فانی ہے
اپنی تعمیر جان و دل کے لیے
اپنی بنیاد ہم کو ڈھانی ہے
یہ ہے لمحوں کا ایک شہرِ ازل
یاں کی ہر بات ناگہانی ہے
چلیے اے جان شام آج تمہیں
شمع اک قبر پر جلانی ہے
رنگ کی اپنی بات ہے ورنہ
آخرش خون بھی تو پانی ہے
اک عبث کا وجود ہے جس سے
زندگی کو مراد پانی ہے
شام ہے اور صحن میں دل کے
اک عجب حزن آسمانی ہے
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع
فہرست