وہ خون بھی تھوکے گا تو پروا نہ کریں گے

جون ایلیا


سوچا ہے کہ اب کار مسیحا نہ کریں گے
وہ خون بھی تھوکے گا تو پروا نہ کریں گے
اس بار وہ تلخی ہے کہ روٹھے بھی نہیں ہم
اب کے وہ لڑائی ہے کہ جھگڑا نہ کریں گے
یاں اس کے سلیقے کے ہیں آثار تو کیا ہم
اس پر بھی یہ کمرا تہ و بالا نہ کریں گے
اب نغمہ طرازان برافروختہ اے شہر
واسوخت کہیں گے غزل انشا نہ کریں گے
ایسا ہے کہ سینے میں سلگتی ہیں خراشیں
اب سانس بھی ہم لیں گے تو اچھا نہ کریں گے
مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن
ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف
فہرست