دل مری جان تیرے بس کا نہیں

جون ایلیا


کون سے شوق کس ہوس کا نہیں
دل مری جان تیرے بس کا نہیں
راہ تم کارواں کی لو کہ مجھے
شوق کچھ نغمۂ جرس کا نہیں
ہاں مرا وہ معاملہ ہے کہ اب
کام یارانِ نکتہ رس کا نہیں
ہم کہاں سے چلے ہیں اور کہاں
کوئی اندازہ پیش و پس کا نہیں
ہو گئی اس گلے میں عمر تمام
پاس شعلے کو خار و خس کا نہیں
مجھ کو خود سے جدا نہ ہونے دو
بات یہ ہے میں اپنے بس کا نہیں
کیا لڑائی بھلا کہ ہم میں سے
کوئی بھی سینکڑوں برس کا نہیں
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع
فہرست