اے عشق مرحبا وہ یہاں تک تو آ گئے

جگر مراد آبادی


شرما گئے لجا گئے دامن چھڑا گئے
اے عشق مرحبا وہ یہاں تک تو آ گئے
دل پر ہزار طرح کے اوہام چھا گئے
یہ تم نے کیا کیا مری دنیا میں آ گئے
سب کچھ لٹا کے راہِ محبت میں اہلِ دل
خوش ہیں کہ جیسے دولتِ کونین پا گئے
صحنِ چمن کو اپنی بہاروں پہ ناز تھا
وہ آ گئے تو ساری بہاروں پہ چھا گئے
عقل و جنوں میں سب کی تھیں راہیں جدا جدا
ہر پھر کے لیکن ایک ہی منزل پہ آ گئے
اب کیا کروں میں فطرت ناکام عشق کو
جتنے تھے حادثات مجھے راس آ گئے
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
فہرست