نہیں دن کو جو فرصت تمھیں تو رات سہی

قمر جلالوی


وفائے وعدہ میں اچھا تمھاری بات سہی
نہیں دن کو جو فرصت تمھیں تو رات سہی
مگر ہمیں تو نگاہِ عتاب سے ہی نواز
عدہ کی سمت تری چشمِ التفات سہی
جو چاہو کہہ لو کہ مجبورِ عشق ہوں ورنہ
تمھیں بتاؤ کہ کس کی بات سہی
تو پھر بتاؤ کہ یہ آنکھوں میں سر خیال کیوں ہیں
غلط وہ محفلِ دشمن کی واردات سہی
رقیب چھائے ہوئے ہیں مثالِ ابر ان پر
قمر نہ آئیں گے وہ لاکھ چاند رات سہی
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
مجتث مثمن مخبون محذوف مسکن
فہرست