اپنے حالات سے مجبور ہیں دوست

شکیب جلالی


پاس رہ کر بھی بہت دور ہیں دوست
اپنے حالات سے مجبور ہیں دوست
ترکِ الفت بھی نہیں کر سکتے
ساتھ دینے سے بھی معذور ہیں دوست
گفتگو کے لیے عنواں بھی نہیں
بات کرنے پہ بھی مجبور ہیں دوست
یہ چراغ اپنے لیے رہنے دو
تیری راتیں بھی تو بے نور ہیں دوست
سبھی پژمردہ ہیں محفل میں شکیبؔ
میں پریشان ہوں رنجور ہیں دوست
فاعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
رمل مسدس مخبون محذوف مسکن
فہرست