مگر آج تک کوئی شہ سوار چھپا ہواہے غبار میں

عرفان صدیقی


یہ چراغ کشتہ نہ جانے کب سے پڑے ہیں راہ گزار میں
مگر آج تک کوئی شہ سوار چھپا ہواہے غبار میں
میں کہاں گلاب شجر کروں‘ میں کشادہ سینہ کدھر کروں
کوئی نیزہ میرے یمین میں‘ کوئی تیغ میرے یسار میں
مجھے اس طلسم سرائے شب میں عجیب کام دیے گئے
نہ جلوں شکستہ فصیل پر، نہ بجھوں ہوا کے حصار میں
انہیں کیا خبر کہ دلاور ی کوئی شرطِ فتح و ظفر نہیں
کہ بکھرتی صف کے پیادگاں، نہ شمار میں، نہ قطار میں
متَفاعلن متَفاعلن متَفاعلن متَفاعلن
کامل مثمن سالم
فہرست