اور پھر ایک دن دل کی ساری زمیں درد کی مملکت میں ملا لی گئی

عرفان صدیقی


لشکرِ عشق نے جب سے خیمے کیے کچھ نہ کچھ روز سرحد بڑھا لی گئی
اور پھر ایک دن دل کی ساری زمیں درد کی مملکت میں ملا لی گئی
رات کو رک کے صحرا جگایا گیا جب تھکن سے بدن کی طنابیں گریں
اپنے ہاتھوں کے تکیے بنائے گئے اپنی مٹی کی چادر بچھالی گئی
ایک چڑیا کی آواز آتی رہی میرے بچوں کو مجھ سے چھڑایا گیا
میری بستی سے مجھ کو نکالا گیا میرے جنگل میں بستی بسا لی گئی
دستِ خالی پہ کیا حوصلہ کیجیے کیسے جینے کی قیمت ادا کیجیے
اب کے دربار میں نذرِ سر بھیج کر بچ نکلنے کی صورت نکالی گئی
کوچۂ رہزناں سے گزرتے ہوئے کچھ بچانا بھی تھا کچھ لٹانا بھی تھا
اپنی صدیوں کا سونا لٹایا گیا اپنے خوابوں کی دنیا بچالی گئی
ختم ہوتا ہے اس رات کا ماجرا اب یہ کیا پوچھتے ہو کہ پھر کیا ہوا
پھر چراغوں کی آنکھیں بجھا دی گئیں پھر گلوں کی زباں کاٹ ڈالی گئی
سارے منظر غبار پسِ کارواں ہو گئے بام و در سب دھواں ہو گئے
اب مناجات کا وقت ہے گھر چلو سیر کی جاچکی خاک اڑا لی گئی
فہرست