اس کے آگے کچھ بھی نہیں ہے سارا منظر خالی ہے

عرفان صدیقی


دل کی زمیں تک روشنیاں ہیں، پانی ہے ، ہریالی ہے
اس کے آگے کچھ بھی نہیں ہے سارا منظر خالی ہے
اگلے تو یہ بام و در و محراب بناکر چھوڑ گئے
میرا مقدر گرتی ہوئی دیواروں کی رکھوالی ہے
قیس گیا فرہاد گیا اب جو چاہو اعلان کرو
یارو کس نے جنگل دیکھا، کس نے نہر نکالی ہے
فہرست