میں بجھا تو مرے بچوں نے اجالی دنیا

عرفان صدیقی


اک نہ اک دیپ سے روشن رہی کالی دنیا
میں بجھا تو مرے بچوں نے اجالی دنیا
دام تو آج کے بازار میں لگتے تھے بہت
میں نے کل کے لیے تھوڑی سی بچالی دنیا
جب اسے سکہ زر جان کے پھیلایا ہاتھ
جانے کس شخص نے مٹھی میں چھپا لی دنیا
وہ خدا ہے اسے معلوم ہے انسان کا ظرف
دل میں رکھ دی، کسی جھولی میں نہ ڈالی دنیا
لے گئے سارے دیے اگلے زمانوں کے بزرگ
خیر، ہم لوگوں نے طاقوں میں سجا لی دنیا
تو وہی ہے ، مرے اجداد کی ٹھکرائی ہوئی
مجھ سے اقرارِ وفا مانگنے والی دنیا
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فہرست